بچوں پر شفقت

بچوں پر شفقت
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے پیار اور شفقت سے پیش آتے۔ ان سے ہنسی مذاق کرتے۔ ان سے دل لگی کرتے۔ ان کو بہلاتے۔ سلام میں آپ سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔
سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا،اے لوگو! بچوں کو چوما کرو کیونکہ ان کے چومنے کے بدلے میں تم کو جنت میں ایک درجہ ملے گا۔(بخاری شریف)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین تربیت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک والد کا اپنی اولاد کی بہترین تربیت سے بہتر کوئی تحفہ نہیں ہو سکتا۔( ابن ماجہ شریف)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،اپنے بچوں کی عزت کیا کرو کیونکہ ان کی عزت کرنا دوزخ کا پردہ ہے اور ان کے ساتھ مل کر کھانا جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔(جامع صغیر)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور دوسرے بچوں سے پیارکرنے کی عملی طورپر تعلیم دی ۔
آپ کے منہ بولے بیٹے زیدتھےآپ نہ صرف زیدکو بہت عزیز رکھتے تھے بلکہ ان کے بیٹے اسامہ سے بھی اپنے بچوں کی طرح بہت پیار کرتے۔آپ اپنے نواسے حسین کو ایک زانو پر بٹھالیتے اور اُسامہ کو دوسرے پر اور دونوں کو سینہ سے لگا کر بھینچتے اور فرماتے اےاللہ!میں ان سے پیار کرتا ہوں تو بھی ان سے پیار کرنا۔(بخاری شریف)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت وتکریم نہ کرے ۔(بخاری شریف)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے، جب سجدہ میں تشریف لے گئے تو حسنین کریمین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب لوگوں نے اُنہیں روکنا چاہا تو آپ نے لوگوں کو اشارے سے منع فرما دیا کہ انہیں چھوڑ دو ، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کو اپنی گود میں لے لیا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب انصار کے پاس تشریف لے جاتے، اُن کے بچوں کو سلام کرتے، اُن کے سر پر دستِ شفقت پھیرتے اور اُن کے لئے دعا فرماتے۔(نسائی شریف)

ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر تھا کہ اُس شخص کا بیٹا اُس کے پاس آیا، اُس شخص نے اُسے چوما اور اُسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ پھر اُس کی بیٹی آئی تو اُس نے اُسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکیا تم اِن دونوں کے درمیان عدل نہیں کرتے۔(بیہقی)
حضرت ابو موسی اشعری فرماتے ہیں کہ میرے گھر ایک لڑکا تولد ہوا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے در پر حاضر ہوا، آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا، کھجورسے اس کی تحنیک فرمائی، اور اس بچے کے لیے برکت کی دعافرمائی۔(بخاری شریف)
صحابہ کرام کی عادتِ طیبہ یہ تھی کہ کسی کے گھر بھی ولادت ہوتی تو اس کوحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آتے آپ بچے کو لیتے، اسے چومتے اس کے لیے برکت کی دعا کرتے۔بخاری شریف)
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام خالد کو بلایا، بذاتِ خود اس لڑکی کو خصوصی قمیص پہنائی، اور فرمایا اس وقت تک پہنو جب تک کہ یہ پُرانی نہ ہوجائے(بخاری شریف)
ایک دفعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو گود میں اٹھالیا، بچے نے کپڑے پر پیشاب کردیا، آپ نے اس پر پانی بہا کر صاف کرلیا، (بخاری شریف))
قربان جائیے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے کفار کے بچوں کے ساتھ بھی نرمی کی تلقین کی اوررحمت دو عالم ہونے کا عملی مظاہرہ کیا ۔ایک یہودی کا لڑکا آپ کی خدمت میں