عورتوں کی بدحالیAuraton ki Buri Halat

ز قلم : مولانا محمد ابراہیم آسی
عورتوں کی بدحالی
آپ تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ اسلام سے پہلے عورتوں کی حالت ناقابل شنید تھی ۔ عورتوں کا کوئی مقام نہیں تھا ، عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی ۔ عورتوں کو کوئی نگاہ عزت سے نہ دیکھتے تھے ، عورتوں کو صرف نفسیاتی خواہش کا ذریعہ سمجھتے تھے ، لفظ عورت ایک گالی بن چکا تھا ۔ جہالت یہاں تک پھیل چکی تھی کہ بیوہ عورت کو منحوس سمجھتے تھے ، بیوہ عورت کے سایہ سے بھی لوگ دور رہتے ، بیوہ عورتوں کو سب نگاہ حقارت سے دیکھتے ، لوگوں کی درندگی یہاں تک پہونچ چکی تھی کہ اپنی لڑکی کو پیدا ہوتے ہی دفن کردیتے ، کسی لڑکی کا باپ یا بھا ئی بننا سب سے بڑی گالی تھی ۔ عورتوں کو حالت حیض و نفاس میں اپنے سے دور رکھتے ، یہاں تک کہ ان کے کھانے پینے کے برتن الگ کر دیتے ، عورتوں کو ناپاکی اور گندگی کا مجسمہ تصور کرتے ، عورتوں سے جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ۔ عورتوں کو اس کے باپ کے ترکہ سے حصہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ اس دور میں بیوہ عورت اپنی اجڑی ہوئی زندگی کو دوبارہ بسانے کا تصور نہیںکر سکتی تھی ۔ عورتوں کو حق حاصل نہیں تھا۔ عورتوں کو زبان کھلنے کی اجازت نہ تھی ۔ عورتوںکی فریاد سننے والا کوئی نہ تھا ۔ عورت ایک حقیر مخلوق سمجھی جاتی تھی یہاں تک کہ عورت ظلم و ستم کا مجسمہ بن چکی تھی ۔اسلام نے عورت کو اس کا مقام عطا کیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ حسن سلو کا درس دیا۔
درگور سے بچایا اسلام نے

عورتوں کی بدحالیAuraton ki Buri Halat

احکام اس کے کیوں گراں بار