سم الله الرحمن الرحيم الحَمْدُ لِلهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى خُصُوصًا عَلَى سَيّدِ الْأَنْیبَاءِ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفَى وَعَلَى الهِ الْمُجْتَبى وَصَحَابَتِهِ الْأَتقِيَاءِ إِلَى يَوْمِ اللقَاء أَمَّا بَعْدُ:
ارکان خمسہ جن پر اسلام کی بنیاد ہے۔ ان میں سے ایک رکن حج بھی ہے جس کو اللہ تعالٰی نے وسعت دی اور آمد ورفت کا خرچ اس کے پاس ہو اور گھروالوں کا خرچ با آسانی موجود ہو، بموجب فرمان الہی:
وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا (٣١/ آل عمران: ۱۹۷)
’’اس پر اللہ تعالی کے گھر کی طرف سفر فرض ہے، کوشش ضروری ہے اور نتائج کا انحصار اللہ تعالی پر ہے۔”
ایک صاحب استطاعت کوشش کرتا ہے لیکن کامیاب نہیں ہوتا تو وہ موردعتاب نہیں، عتاب ان لوگوں پر ہے جن کو توفیق میسر ہے لیکن مال کے کم ہو جانے کا خیال ہے۔
صحت نیت
جانے سے پہلے نیت صحیح کر لینی چاہئے کہ فریضہ الہیہ کے لئے جارہا ہوں ، نہ ریا مقصود ہے، نہ حاجی صاحب کہلانے کا خیال محض رضائے الہی مطلوب ہے۔ اللہ تعالی ایسے لوگوں کی سعی قبول فرمائے۔ (آمین ثم آمین )
حج مبرور
صحیحین میں ہے:((عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ سُنلَ رَسُولُ الله ﷺ ایى الأعْمَالِ أَفْضَلُ قَالَ إِيْمَانُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ قَیلَ ثُمَّ مَاذَا قَالَ جِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَیلَ ثُمَّ مَاذَا قَالَ حَج مَبْرُورٌ( وَفِي رَوَايَةِ الْبيَهقي وَالْحَاكِم مُخْتَصَرًا) قَالَ الْحَج الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءُ إِلَّا الْجَنَّةَ قَیلَ وَمَا برةَ قَالَ إِطْعَامُ الطَّعَامِ وَطِيِّبُ الْكَلَامِ)) (بخاری، کتاب الحج: ۳۸۱/۳، حدیث: ١٥١٩)
حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں آنحضرتﷺ سے سوال کیا گیا کہ کون سے اعمال افضل و بہتر ہیں؟ آپ فرماتے ہیں سب سے افضل اللہ تعالٰی اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ سائل نے سوال کیا پھر کون سا آپ ﷺ فرماتے ہیں جہاد، سائل نے پھر پوچھا پھر کون سا عمل؟ آپ ﷺ فرماتے ہیں: حج مبرور ۔ حج مبرور کی آپ خود ہی تفسیر فرماتے ہیں کہ وہ حج ہے جس میں مروت واحسان کیا جائے ۔ لوگوں کو کھانا کھلایا جائے اور جھگڑا وغیر ہ چھوڑ کر عمدہ کلام سے معاملات نپٹائے جائیں۔
حجاج کرام پر شیطانی حملے
حج میں خصوصاً شیطان اپنے لاؤ لشکر لے کر حاجی کو غیر شرعی باتوں پر اکساتا ہے کہیں بوٹی پر جھگڑا، کہیں روٹی پر کہیں پانی پر معمولی باتوں پر تحریص ورغبت دلاتا ہے۔ خدا تعالی نے اسی لیے خصوصا ( بحیثیت نوٹ ) ارشاد فرمایا:
وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ( ١٢ البقرة: ١١٩٧)
’’کہ حج میں جھگڑا، دنگا فساد سے اجتناب کرنا چاہئے ورنہ حج ’حج مبرور‘ نہ ہوگا،‘‘
(۲) ابن ماجہ ، ابن خزیمہ ، ابن حبان میں منقول ہے:
( عَنْ أَبِي هُرَيرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ مَعَ الْحُجَّاج وَالْعُمَّارُ وَفدُ اللَّهِ إِنْ دَعَوْهُ أَجَابَهُمْ وَإِنْ اسْتَغْفَرُوهُ غفَرَلَهُمْ)( ابن ماجه كتاب المناسك باب فضل دعاء الحجاج حدیث ۱۳٠١٤ صحيح سنن ابن ماجه للالباني ٠١٤٩/٢ صحیح ابن حبان: ٣٦٨٤/٦)
رسول اللہﷺ فرماتے ہیں حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالی کی جماعت ہیں۔ ان کا امتیازی نشان یہ ہے کہ اگر اپنے مالک سے کسی قسم کی دعا کریں تو اسے شرف قبولیت حاصل ہوتا ہے، اگر مغفرت چاہیں تو انہیں معاف کر دیتا ہے۔
عن ابن عباسؓ قال حج النبي ﷺ حجة الوداع ثم اخذ بحلقة باب الكعبة فقال: ايها الناس الا اخبركم باشراط الساعة يا سلمان يحج الناس الى هذا البيت الحرام تحج ملوكهم لهوا او تنزها واغنياء هم للتجارة ومساكنهم للمسئلة وقراء هم زياء وسمعة، قال: ويكون ذلك يا رسول الله؟ قال: نعم والذي نفسي بيده، عنده ذالك يا سلمان يفشو الكذب يظهر الكوكب له الذنب وتشارك المرأة مع زوجها في التجارة وتتقارب الاسواق، قال وما تقاربها؟ قال كسادها وقلة ارباحها عند ذالك يا سلمان، يبعث الله ريحا فيها حيات صفر فتلقط رؤساء العلماء لما رأو المنكر فلم يغيروه قال: ويكون ذالك يا رسول الله، قال نعم، والذي بعث محمداً بالحق.
(تفسیر در منثور، ج ۶ ص ٥٣)
رسول اللہ ﷺ نے جب حجۃ الوداع کیا تو آپ نے بیت اللہ کا کنڈا پکڑ کر صحابه کرام ؓ کو عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا کہ لوگو! کیا میں تمہیں علامات قیامت اور اس کی نشانیاں اور شرائط کے بارہ میں مطلع نہ کروں ؟ اس پر حضرت سلمان ؓ نے عرض کی اے اللہ کے حبیب! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ضرور ارشاد فرمائیں۔ (یہاں صرف وہ حصہ ذکر کیا جاتا ہے جو صرف حج سے متعلق ہے ) آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں یہ بھی ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ بادشاہوں اور ملوک کا حج سیر و تفریح کے لئے فنی و مالدار لوگوں کا حج تجارتی مفادات کی خاطر ، غرباہ و مساکین کا حج سوال اور روپیہ پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے ، اور علماء و قراء کا حج ریا کاری دکھلاوے کی خاطر ہو گا۔
حضرت سلمان ؓ نے اس پر سوالا غرض کی یا رسول اللہ ﷺ کیا اس طرح بھی ہو جائے گا؟ آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ایسا ضرور ہوگا۔ سلمان ! اس وقت جھوٹ عام ہو جائے گا اور دم دار ستارہ دکھائی دے گا اور عورت اپنے شوہر کے ساتھ کاروبار تجارت میں شریک ہو گی۔ بازار قریب قریب ہوں گے ۔ حضرت سلمان ؓ نے عرض کی کہ ان کے قریب ہونے کا سبب کیا ہو گا ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، اس کا سبب کساد بازاری اور قلت نفع ، اور اس وقت یہ بھی ہو گا کہ آندھیاں چلیں گی جس میں زرد رنگ کے سانپ ہوں گے اور وہ سانپ اس وقت کے علماء وقرآہ سے چمٹ جائیں گے کیونکہ انہوں نے منکرات و برائیاں دیکھیں اور ان کا انکار نہ کیا۔
حضرت سلمان ؓ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ کیا ایسا ھی ہو گا ؟
آپ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد ﷺ کو حق دے کر بھیجا، یہ ضرور ہو گا۔
(یہ احوال قرب قیامت کے وقت پیش آئیں گے )
حج کی فضیلت
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جس نے حج کیا اور وہ تمام قسم کے جھگڑوں اور گناہ کے کاموں سے بچا رھا وہ اس طرح لوٹے گا جیسے اسے ابھی اس کی والدہ نے جنا ہے۔ یعنی گناہوں سے بالکل پاک وصاف ۔ (بخاری کتاب الحج ۳۸۲/۳، حدیث ١٥٢١)
پاکیزہ مال کی ضرورت
(إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طيبا)
(صحيح مسلم، كتاب الزكوة، باب قبول الصدقة من الكسب الطيب وتربيتها، ٢٤٤٢ ، (١٠١/٧) مع شرح النووى)
اللہ تعالی خود طیب ہے، طیب کو ہی قبول کرتا ہے۔
طبرانی ؒ نے ابو ہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ” جب آدمی پاکیزہ زاد سفر کے ساتھ حج کے لیے نکلتا ہے اور اپنا پاؤں سواری کے رکاب میں رکھ کر لبیک پکارتا ہے تو اس کو آسمان سے پکارنے والا جواب دیتا ہے، تیری لبیک قبول اور رحمت انہی تجھ پر نازل ہو، تیرا تو شہ حلال اور تیری سواری حلال اور تیرا حج مقبول ہے اور تو گناہوں سے پاک ہے، اور جب آدمی حرام کمائی کے ساتھ حج کے لیے نکلتا ہے اور سواری کے رکاب میں پاؤں رکھ کر لبیک پکارتا ہے تو آسمان سے منادی کرنے والا جواب دیتا ہے، تیری لبیک قبول نہیں، نہ تجھ پراللہ کی رحمت ہو، تیرا زار سفرحرام، تیری کمائی حرام اور تیرا حج غیرمقبول ہے۔(احکام انکی واصر الشیخ ابن باز جس ۴۳)
جانے سے پہلے عمدہ صاف مال لے کر اس سفر کو اختیار کرنا چاہیئے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صالح عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
گھر سے نکلتے وقت
جب حاجی سفر کی تیاری میں اپنا رخت سفر باندھے تو گھر سے نکلنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھے۔ اس سے سفری تکالیف سے اللہ تعالی محفوظ رکھے گا۔ بیہقی ابن عساکر اور دیلمی میں حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے۔ آنحضور،ﷺ پر فرماتے ہیں۔ جب سفر حج میں جانے کا ارادہ کرے تو اپنے بھائیوں کے لئے جو مقیم ہیں الوداع کرتے وقت دعا کرے۔ اللہ تعالیٰ اس کی دعا میں برکت کرے گا اور حاجی مسافر کے لیے اس کے بھائی دعا کریں
۔ مسنون دعا یہ ہے۔
(زوَّدَكَ اللهُ التَّقْوى وَعَفَرَلَكَ ذَنبكَ وَبَشَرَلَكَ الْخَيْرَ حَيْثُ مَا كُنتَ.) (ترمذی، باب ما يقول، اذا اودع انساناً ۲/ ۱۸۰)
’’بھائی ! اللہ تعالی تقویٰ کو تیرا زاد راہ بنائے اور تیرے گناہ معاف کرے اور تمام بھلائی کی سہولتیں جہاں بھی آپ ہوں میسرو مہیا فرمائے ‘‘
اور خود حاجی صاحب اپنے مالک سے نہایت عجز و انکسار سے کہے:
(اللهم انتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلیفةُ فِي الأهلِ وَالْمَالِ اللَّهُمَّ اصْحَبُنَا فِي سَفَرِنَا هَذَا وَاخْلُفْنَا فِي أهْلِنَا اللهُم إلى أعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْتَاءِ السَّفَرِ وَكَابَةِ الْمُنقَلبِ وَمِنْ سُوءِ الْمُنظَرِ وفِي الْأَهْلِ وَالْمَالِ) (ترمذی، باب ماذا يقول واذا خرج مسافر ۱۸۱/۲۱)
اے میرے مالک تو ہی میرے سفر میں میرا ساتھی ہے اور تو ہی میرے اہل و مال میں ( نگہبان ) خلیفہ ہے تو ہی سفر میں ہمارا ساتھ دے اور تو ہی ہمارے اہل میں ( نگہبان ) خلیفہ ہو، اے میرے مالک! میں سفر کی صعوبتوں سے تیری ذات کی پناہ چاہتا ہوں۔ نفع کے بعد نقصان سے پناہ چاہتا ہوں ، اپنے اہل و مال میں برے منظر سے بھی پناہ چاہتا ہوں۔“
یہ دعا کرے ان شاء اللہ سفر اچھا گزرے گا۔ ناخوشگوار واقعہ بفضلہ تعالی پیش نہیں آئے گا۔
ایک اور بھی مختصری دعا منقول ہے۔
(اللَّهُمَّ إِلَى اسْتَلْكَ الْبِرِّ وَالتَّقْوى وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى اللَّهُمَّ هَوَنُ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ). (صحيح مسلم، کتاب الحج، باب ما يقول إذا ركب إلى سفر الحج وغيره، برقم ٣٢٦٢، ١١٥/٩)
اے میرے مالک میں اس سفر مبارک میں نیکی اور تقویٰ کا سائل ہوں اور تیرے پسندیدہ اعمال کی توفیق تجھ سے مانگتا ہوں اے میرے مالک سفر کی تمام صعوبتوں کو مجھ پر آسان کر دے اور سفر کی دوری کو لپیٹ کر مختصر بنا دے۔”
یہ تمام دعائیں آنحضور ﷺ سے منقول ہیں۔ ان کے پڑھنے سے سفر با برکت ہوگا۔
جب سواری پر چڑھے خواہ ریل گاڑی ہو یا جہاز تو یہ دعا مسنون ہے
سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ(٤٣/ ز حرف ١٤٠١٣)
بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ۚ إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ(ْ ۱۱/ھود۱۴)
اس دعا مسنون کے بعد ان شاء اللہ نقصان سے محفوظ رہے گا۔
رفقاء سے معاونت
جب سفر شروع ہو جائے تو اپنے رفقاء سے حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرے، رفیق کی گری پر نرمی اختیار کرے، غریب بوڑھے اور عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک اور معاونت سے پیش آئے ۔ جس طرح یہ جماعت الہی بیت اللہ کی طرف جارہی ہے اسی طرح العین ابدی اپنے چیلے ان کے ساتھ بھیجتا ہے جو آپس میں فتنہ و فساد شرکے لئے شدت سے کوشاں ہوتے ہیں۔ برائی کی طرف رغبت دیتے ہیں اور خیر کے کاموں میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ سعادت مند وہ ہے جسے اللہ تعالٰی محفوظ رکھے اور اپنی کوشش جاری رکھے تا کہ فتنہ وفساد سے احتراز ہو۔
قصر صلوة
سفر میں نماز کو قصر کر کے پڑھنا زیادہ ثواب ہے۔ قصر صلوۃ کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا:
(صَدَقَةٌ مِنَ اللهِ فَاقْتِلُوا صَدَقَتَهُ) (مسند احمد ١/ ١٥)
اللہ کا آپ پر احسان عظیم ہے اس کے احسان کو قبول کرو محنت کم اجر زیادہ اللہ کی رضا ، اطاعت پیغمبر میں ہے۔”
جس جگہ اقامت اختیار کی جائے تین دن سے زیادہ اقامت کا ارادہ ہوتو وہاں جاتے ہی پوری نماز پڑھنی چاہیے۔(موطا امام مالك ص: ۱۳۲)
قصر صلوۃ میں جہاں چار رکعت پڑھنی فرض ہیں وہاں دو رکعت پڑھے۔ مثلاً ظہر، عصر، عشا، ہاں اگر امام کے پیچھے ہو تو امام کی اقتداء ضروری ہے۔ جتنی رکھتیں امام پڑھنے اتنی ہی رکھتیں اسے پڑھنی اطاعت امام کے تحت لازمی ہوں گی۔ سفر میں سنت موکد و معاف ہیں وتر اور صبح کی سنت آنحضورﷺ سفر و حضر میں ترک نہیں کرتے تھے۔
اقسام حج
حج تین طرح سے منقول ہے۔ قران ،تمتع اور مفرد حج
قران
میقات سے گزرتے وقت حج اور عمرہ کا اکٹھا احرام باندھنا اور دسویں ذی الحجہ کو حلال ہوا اسے قران کہتے ہیں اور کرنے والے کو’’ قارن‘‘ کہتے ہیں۔
تمتع
میقات سے گزرتے وقت صرف عمرہ کا احرام باندھتا اور عمرہ کر کے حلال ہو جاتا اور آٹھ ذی الحجہ کو دوبارہ صرف حج کا احرام باندھنا اور دسویں ذی الحجہ کو منی کے مقام میں حلال ہو جانا اسے حج تمتع کہتے ہیں اور یہ عمل کرنے والا تمتع کہلاتا ہے۔
نوٹ ۔ احرام میقات گزرنے سے پہلے باندھنا ضروری ہے۔
مفرد حج
میقات سے صرف حج کا احرام باندھنا اور دسویں ذی الحجہ مقام منی میں قربانی کے بعد احرام کھولنے کو محض حج کہتے ہیں اور کرنے والے کو مفرد بالحج یا حاجی کہتے ہیں ۔ پاکستانی اور ہندوستانی ہی نہیں بلکہ کل دنیا کے لوگوں کو سہولت تمتع میں ہے کیونکہ احرام کے بعد عمرہ کر کے اس کے لئے سب حلال شدہ چیزیں جو احرام کی وجہ سے حرام تھیں حلال ہو جاتی ہیں۔ اور آدمی با سہولت خوشبو لگا سکتا، لباس زیب تن کر سکتا ہے ممانعت نہیں اور عموما محدثین کا خیال یہ ہے کہ تمتع ، قرآن اور اکیلے حج سے افضل ہے۔ چونکہ
نبی علیه التحية والتسليم قربانی ساتھ لائے تو اس لئے ان کے لئے قارن رہنا بھی ضروری تھا ورنہ ممکن تھا کہ آپ بھی تمتع کرتے جس طرح کہ:
( لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِى مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا أَهْدِيتُ )
(اگر مجھے پہلے معلوم ہو جاتا جو بعد میں معلوم ہوا تو میں قربانی ساتھ نہ لاتا) کا تقاضا ہے وَالْعِلْمُ عِندَ اللهِ (صحیح سنن ابی داؤد للالبانی ٣٥٧/١، ١٦٧٦)
طریقہ احرام
ہمارے پاکستانی، ہندوستانی بھائیوں کے لئے میقات ’’یلملمم ‘‘ پہاڑی ہے۔ میقات اسے کہتے ہیں جس سے آگے حاجی کو بغیر احرام کے نہیں جانا چاہئے ۔ جہاز پر سفر کرنے والوں کو پہلے اطلاع دے دی جاتی ہے کہ فلاں وقت یلملم پہاڑی کے قریب جہاز گزرے گا۔ اس لئے انہیں ضروری ہے کہ قبل از وقت غسل کر لیں اور خوشبو لگا لیں اور دو چادریں، ایک تہ بند کی شکل میں اور دوسری چادر کندھوں پر اوڑھ لیں ، سرننگا رکھیں، جراب، دستانے ، کرتہ، پاجامہ وغیرہ پہنے درست نہیں۔ ان سلی چادروں کی قید شرع محمدی میں کہیں نہیں ملتی۔ ہوائی جہاز پر سوار ہونے والے کراچی سے احرام باندھ لیں کیونکہ انہیں میقات کا علم مشکل ہے۔
عورت کا احرام
اچھے کپڑے اتار کر غسل کرے، پھر عام لباس ، شلوار، کرتے اور اوڑھنی پہن لے اور کپڑے احرام والے ( مرد وعورت ) پہن کر ، اگر وقت ہو تو کوئی فرض نماز ادا کریں اور پھر کہیں:
لبيك اللهم لبيكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ والنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِلهَ الحَقِّ لَبَّيْكَ. (بخاری، کتاب الحج ٤٠٨/٣ حدیث ١٥٤٩، مسلم ۱/ ۳۷۵ باب التلبية وصفتها)اے میرے مالک! غلام حاضر ہے ( آپ کے گھر کی زیارت کے لئے ) اے میرے مالک غلام حاضر ہے اور اقرار کرتا ہے کہ تو اپنی مملکت میں ذات وصفات میں یکتا وحدہ لاشریک ہے۔ تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے ہی لئے ہیں۔ بادشاہی تیری، ملک تیرا، تیرا کوئی ثانی نہیں۔ غلام حاضر ہے اور اے میرے سچے معبود! غلام حاضر ہے۔ (اسے شرف قبولیت عطا فرما)
جس خوش بخت کی نیت تمتع کی ہو وہ محض عمرہ کا احرام باندھے اور جب تلبیہ یعنی لبیک کہے تو پہلی دفعہ کہے
(لبیك عُمْرَةٌ لبیكَ عُمْرَةً حَجا)، (مسند احمد (۱۰۰/۳)
جس طرح اوپر گزر چکا ہے اور جب بیت اللہ پہنچے گا تو تلبیہ ختم ہوگا۔ راستے میں کبھی اللہ اکبر کبھی لا الهَ إِلَّا اللہ پڑھے۔ کوئی مضائقہ نہیں۔ آنحضور ﷺ کی موجودگی میں اس طرح پڑ ھا جاتا تھا۔

ممنوعات احرام
حالت احرام میں کرتہ قمیض ، شلوار، کوٹ، ٹوپی وغیرہ جبکہ دستانے، جراب، خوشبو ممنوع ہیں۔ زعفرانی کپڑا زعفران اور کستوری لگانا ممنوعات میں شامل ہیں۔ نہ بال توڑے نہ جوں مارے ہاں زمین پر پھینک سکتا ہے، غسل کر سکتا ہے، لیکن بال نہ ٹوٹنے پائے تیل لگانے سے احتراز کرے، نہ بال منڈوائے ، نہ کنگھی کرے۔ میاں بیوی ہوں تو جنسی تعلقات اور اس کے مقدمات سے احتراز کریں۔ عورتوں کے لئے حالت احرام میں چہرہ کھلا رکھنا جائز نہیں ہے۔ چہرہ کھلا رکھیں ، جب معلوم ہو کہ غیر محرم آرہے ہیں تو پردہ کریں۔ (بخاری، کتاب الحج ٤٠١/٣، حدیث ١٥٤٢، مسلم: ۳۷۲/۱، ۳۷۳ باب ما پیاح للمحرم ، ارواء الغليل: ۲۱۲/۳، حدیث: ۱۰۲۳، ١٠٢٤)
عورت پر پردہ واجب ہے
یہ مسئلہ جو مشہور ہے کہ عورت سر پر کوئی ٹوکری وغیرہ یا پنکھی باندھ لے۔ جس سے منہ پر کپڑا نہ لگے کہیں ثابت نہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کو گئی تھیں فرماتی ہیں جب ہمیں معلوم ہوتا کہ غیر محرم آرہے ہیں تو ہم اپنا چہرہ ڈھانپ لیتیں اور جب چلے جاتے تو چہرہ کھول لیتیں۔ (ارواء الغليل ٢١٢/٣ حج ١٠٢٣، ١٠٢٤)
چہرھ پر ہمیشہ کپڑا رکھنا اور اسے ڈھانپے رکھنا خلاف سنت ہے۔ یھی سنت طریقہ ہے۔ بے حجابی کسی جگہ بھی اللہ تعالی کو پسند نہیں۔ خصوصا ایسے سفر میں غیر شرعی کام نہیں چاہئے۔ عموما لوگوں میں مشہور ہے کہ حج کے بھائی بہن ہیں اس لئے پردہ کی ضرورت نہیں، غیر شرعی قول و فعل ہے اللہ تعالی محفوظ رکھے۔
موذی جانور کا قتل
محرم موذی جانور ، مثلا، سانپ ، بچھو، چوہا، کوا، چیل، باولا کتا، بھیٹر یا وغیرہ جو موذی ہوں ، مار سکتا ہے۔ تا کہ اس کے شر سے لوگ محفوظ رہ سکیں ۔ اسی طرح حملہ آور جانور یا آدمی اس کی مدافعت کر سکتا ہے۔ شرعاً جرم نہیں۔ (بخاری، کتاب جزء الصيد ٣٥/٤، حدیث ۱۸۲۹،۳۰، مسلم ۳۸۱/۱، باب ما يندب للمحرم وغيره قتله ارواء الغليل ٢٢١/٣، حدیث ١٠٣٦. مناسك الحج شيخ الاسلام ابن تيميه)
مکہ کے حرم میں داخل ہوتے وقت کوئی دعا مسنون میری نظر سے نہیں گزری متداول کتب کی چھان بین سے یھی پتہ چلتا ہے۔ (واعلم عند الله )
مکہ میں داخل ہونے سے پہلے جس جگہ سے آبادی شروع ہوتی ہے وہاں ایک کنواں ہے جسے ’’بر ذی طوی ‘‘ کہا جاتا ہے آج کل زاہر کے نام سے مشہور ہے یہ جدہ سے آتے بائیں جانب ہے وہاں غسل کرنا مسنون امر ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے پہلے غسل کیا تھا۔ (بخاری کتاب الحج ٢/ ٤٣٥ حدیث ١٥٧٣، مسلم ٤١٠/١، باب استحباب المبيت بنی طوی)
پھر وہاں سے معلی کی جانب سے بیت الحرام کے دروازہ باب السلام سے داخل ہونا چاہئے اور سیدھے بیت اللہ المکرم کو آئے اور جب بیت اللہ شریف پر پہلی نظر پڑے تو یہ دعا پڑھے جیسا کہ :۔ ابن جریر نے نقل کیا ہے:
(كَانَ إِذْ راى الْبَيْتَ رَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ زِدْهَدًا البيت الشرِيقًا وَتَعْظِيمًا وَتَكْرِيمًا وَمَهَابَةٌ وَبِرًّا وَّرَدْ مَنْ شرقة وكَرَّمَهُ مِمَّنْ حَجَّهُ أَوِ اعْتَمَرَهُ تَشْرِيقًا وَتَعْظِيمًا.) (السنن الكبرى للبيهقي (۷۳/۵))
آنحضورﷺ جب بیت اللہ شریف کو دیکھتے وہ دونوں ہاتھ اٹھاتے اور یہ دعا پڑھتے ۔ اے میرے مالک اس عظیم گھر کی شرافت کرامت ، عظمت اور ہیبت میں زیادتی فرما اور جس خوش نصیب نے اس برکت والے گھر کی عظمت اور شرافت کو برقرار رکھتے ہوئے حج کیا یا عمرہ کیا اس کی شرافت و عظمت میں تو اضافہ فرما۔